1. تعارف: گورننس کی اہمیت اور پاکستان کا تناظر
"عمدہ گورننس شاید غربت کے خاتمے اور ترقی کے فروغ کے لیے سب سے اہم واحد عنصر ہے۔" یہ الفاظ کوفی عنان کے ہیں، جو اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا انحصار اس کے اداروں کی مضبوطی اور شفافیت پر ہوتا ہے۔ یہ پالیسی پیپر پاکستان کو درپیش گورننس کے چیلنجز کا گہرائی سے جائزہ لینے اور ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے ایک حتمی فریم ورک پیش کرتا ہے۔ اس کا مقصد گفتگو کو مسائل کی نشاندہی سے آگے بڑھا کر قابل عمل حل کی تشکیل تک لے جانا ہے۔
اس مقالے کا بنیادی مؤقف یہ ہے کہ عوامی اعتماد اور ادارہ جاتی کارکردگی کی بحالی کوئی تجریدی مقصد نہیں بلکہ پاکستان کی بقا اور ترقی کی واحد بنیادی شرط ہے۔ یہ ایک ایسی اسٹریٹجک لازمیت ہے جس کے اثرات معاشی استحکام سے لے کر شہریوں کی روزمرہ زندگی تک ہر پہلو پر مرتب ہوتے ہیں۔ جب گورننس ناکام ہوتی ہے تو معاشرے جمود کا شکار ہو جاتے ہیں، اور جب یہ کام کرتی ہے، خواہ معمولی طور پر ہی کیوں نہ ہو، قومیں ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتی ہیں۔
اس اصلاحاتی سفر کا آغاز کرنے کے لیے، سب سے پہلے 'عمدہ گورننس' کی ایک واضح تعریف قائم کرنا ضروری ہے، جو ہمارے لیے اصلاحات کا معیار اور ہدف متعین کرے۔
2. عمدہ گورننس کی تعریف: بنیادی اصول اور ستون
کسی بھی بامعنی اصلاحات کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ ہدف کے بارے میں ایک واضح اور مشترکہ فہم موجود ہو۔ یہ حصہ عمدہ گورننس کے ان عالمی اصولوں کی وضاحت کرے گا جو مجوزہ فریم ورک کی بنیاد ہیں۔ گورننس سے مراد قواعد، اداروں اور طریقہ کار کا وہ ڈھانچہ ہے جس کے ذریعے اختیار کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ طے کرتا ہے کہ حکومتوں کا انتخاب، نگرانی اور معزولی کیسے ہوتی ہے، وسائل کا انتظام کیسے کیا جاتا ہے، اور عوامی خدمات کی فراہمی کس طرح یقینی بنائی جاتی ہے۔
عمدہ گورننس تین لازمی ستونوں پر قائم ہے:
- شفافیت (Transparency): شفافیت کے بغیر بدعنوانی پنپتی ہے۔ جب فیصلے اور کارروائیاں عوام کی نظروں سے اوجھل ہوتی ہیں تو اختیارات کا ناجائز استعمال آسان ہو جاتا ہے۔
- جوابدہی (Accountability): جوابدہی کے بغیر طاقت پر کوئی روک ٹوک نہیں رہتی۔ حکام کو اپنے اعمال کے لیے ذمہ دار ٹھہرانے کا نظام ہی اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ وہ عوام کی خدمت کریں۔
- شرکت (Participation): شرکت کے بغیر جمہوریت عوام سے دور ہو جاتی ہے۔ جب شہری فیصلہ سازی کے عمل میں شامل نہیں ہوتے تو نظام ان کی ضروریات اور توقعات سے لاتعلق ہو جاتا ہے۔
یہ اصول ایک مثالی معیار فراہم کرتے ہیں۔ اب یہ دیکھنا ضروری ہے کہ پاکستان کا موجودہ نظام اس معیار پر کہاں کھڑا ہے۔
3. پاکستان میں گورننس کا خلا: موجودہ صورتحال کا تجزیہ
یہ حصہ پاکستان کے "گورننس کے خلا" کا تنقیدی تجزیہ پیش کرتا ہے—یعنی شہریوں کی توقعات اور نظام کی کارکردگی کے درمیان وسیع خلیج۔ اس خلا کی بنیادی وجوہات کی تشخیص کرنا موثر اصلاحات کے ڈیزائن کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
ادارہ جاتی ورثہ: کنٹرول بمقابلہ خدمت
قیامِ پاکستان کے وقت وراثت میں ملنے والے ادارے عوام کی خدمت کے بجائے کنٹرول کے لیے بنائے گئے تھے۔ دہائیوں کے دوران، یہ بیوروکریٹک ورثہ ایک ایسے نظام میں تبدیل ہو گیا جہاں اکثر نتائج کے بجائے طریقہ کار کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ یہ نوآبادیاتی ورثہ محض ایک تاریخی حقیقت نہیں، بلکہ جدید معاشی اور سماجی ترقی کی راہ میں ایک فعال رکاوٹ ہے۔
سیاسی عدم استحکام اور اس کے اثرات
مسلسل سیاسی عدم استحکام نے اس نظام میں مزید پیچیدگیاں پیدا کی ہیں۔ حکومتوں میں بار بار تبدیلی، دائرہ کار کے ابہام، اور وفاقی و صوبائی سطحوں پر کمزور ہم آہنگی نے ریاست کی اپنے بنیادی فرائض انجام دینے کی صلاحیت کو مفلوج کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں، شہری خدمات اور انصاف کی توقع رکھتے ہیں، لیکن نظام سست، غیر مساوی، یا بعض اوقات بالکل غیر فعال ردعمل دیتا ہے۔
عوامی اعتماد کا خاتمہ اور اس کے نتائج
اس صورتحال کا سب سے سنگین نتیجہ عوامی اعتماد کا خاتمہ ہے۔ شہری بدعنوانی، اقربا پروری اور نااہلی سے مایوس ہیں۔ یہ ناکامی کوئی تجریدی تصور نہیں؛ یہ روزمرہ کی زندگی میں نظر آتی ہے: جب کچرا نہیں اٹھایا جاتا، جب ہسپتال میں دوائیں ختم ہو جاتی ہیں، یا جب کسی طالب علم کو رشوت کے بغیر سرٹیفکیٹ نہیں ملتا۔ یہ مایوسی عوام میں بے حسی پیدا کرتی ہے، وہ عوامی زندگی میں حصہ لینے سے گریز کرتے ہیں، اور ملک کا بہترین ٹیلنٹ ایک ٹوٹے ہوئے نظام میں مواقع نہ ملنے کی وجہ سے ہجرت کر جاتا ہے۔
اس مسئلے کی تشخیص سے یہ واضح ہے کہ اب ہمیں ایک تعمیری اور مستقبل پر مبنی اصلاحاتی ایجنڈے کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔
4. جامع اصلاحات کے لیے مجوزہ ستون
مسئلے کا تجزیہ کرنے کے بعد، اب ہماری توجہ اصلاحات کے لیے ایک فعال اور قابل عمل فریم ورک پر مرکوز ہے، جو ثابت شدہ بین الاقوامی مثالوں پر مبنی اور پاکستان کی ضروریات کے مطابق تیار کیا گیا ہے۔
عالمی اسباق: کامیاب اصلاحات کے ماڈل
جنوبی کوریا، سنگاپور اور روانڈا جیسی اقوام، جو کبھی کمزور گورننس کے ساتھ جدوجہد کر رہی تھیں، یہ ظاہر کرتی ہیں کہ مستقل اصلاحات معاشروں کو کیسے تبدیل کر سکتی ہیں۔ ان کی کامیابی کا راز دولت یا قسمت نہیں، بلکہ اداروں کو جدید بنانے، میرٹ کو مضبوط کرنے اور عوامی خدمت کو ایک حقیقی نصب العین بنانے کا عزم تھا۔
اسٹونین ماڈل: ڈیجیٹل گورننس کا سبق
اسٹونیا نے تقریباً تمام سرکاری خدمات—ٹیکس سے لے کر ووٹنگ تک—آن لائن منتقل کر دیں۔ اس ڈیجیٹل تبدیلی نے شفافیت میں اضافہ کیا، جس سے بدعنوانی مشکل اور کارکردگی آسان ہو گئی۔ اسٹونیا کی ڈیجیٹل چھلانگ پاکستان کے لیے دہائیوں کی بیوروکریٹک سستی کو نظرانداز کرنے اور ہمارے تجزیے میں نمایاں کردہ اعتماد کے خسارے کو دور کرنے کا ایک براہ راست بلیو پرنٹ فراہم کرتی ہے۔
ان عالمی اسباق اور مقامی حقائق کی بنیاد پر، ہم قومی تجدید کے لیے ایک مربوط اور جامع بلیو پرنٹ پیش کرتے ہیں جو پانچ باہم منحصر ستونوں پر مشتمل ہے:
- مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانا: فیصلہ سازی کو مقامی سطح پر منتقل کرکے کمیونٹیز کو بااختیار بنانا۔
- بیوروکریسی کی جدید تشکیل: بیوروکریسی کو مراعات سے خدمت کی طرف منتقل کرنا۔
- انصاف تک رسائی کو یقینی بنانا: نظامِ انصاف تک ہر شہری کی مساوی رسائی کو یقینی بنانا۔
- ٹیکنالوجی کے ذریعے شفافیت: پہلے تشخیص کی گئی گہری جڑوں والی بدعنوانی اور نااہلی کا مقابلہ کرنے کے لیے، ڈیجیٹل ٹولز کے ذریعے شفافیت کو نظام کا حصہ بنانا۔
- شہریوں کی شرکت: اس قومی تجدید میں شہریوں کو ایک فعال شراکت دار بنانا۔
تاہم، اصلاحات کا یہ تکنیکی بلیو پرنٹ ناکام ہونے کے لیے بنایا گیا ہے جب تک کہ یہ عوامی خدمت کی غیر متزلزل اخلاقی بنیاد پر استوار نہ ہو، جس کا اب ہم جائزہ لیں گے۔
5. اخلاقی بنیاد: قیادت اور ذمہ داری
پائیدار اصلاحات ایک مضبوط اخلاقی بنیاد کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ گورننس محض ایک تکنیکی مسئلہ نہیں ہے؛ یہ ایک اخلاقی سوال ہے۔ اس کے مرکز میں عوامی بھلائی کی خدمت اور ذاتی مفادات کے تحفظ کے درمیان انتخاب ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے ہر ایک نگران ہے، اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔" ذمہ داری کا یہ لازوال اصول عمدہ گورننس کا جوہر ہے۔ یہ رہنماؤں کو یاد دلاتا ہے کہ طاقت ملکیت نہیں، بلکہ ایک امانت ہے، اور اس امانت کا حساب دینا ہوگا۔
یہی اخلاقی ذمہ داری ہمیں آگے کے عملی اقدامات اور فیصلوں کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
6. حاصل کلام اور لائحہ عمل
گورننس کوئی دور دراز، تجریدی تصور نہیں، بلکہ یہ ہر شہری کے لیے دستیاب معیارِ زندگی، انصاف اور مواقع کا بنیادی تعین کنندہ ہے۔ یہ اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ ہم کس قسم کے معاشرے میں رہتے ہیں—ایک ایسا معاشرہ جہاں انصاف کا راج ہو یا اقربا پروری کا، قانون کی حکمرانی ہو یا اثر و رسوخ کی۔
یہ ہمیں ریاست کے بنیادی مقصد کی یاد دلاتا ہے، جسے قائد اعظم محمد علی جناح نے واضح طور پر بیان کیا ہے: "حکومت کا پہلا فرض امن و امان قائم کرنا ہے، تاکہ اس کے شہریوں کی جان، مال اور مذہبی عقائد مکمل طور پر محفوظ ہوں۔" اس مقصد کا حصول گورننس کی اصلاحات کو ایک قومی مینڈیٹ بناتا ہے۔
اصلاحات کا راستہ طویل ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ یہ اس بیداری سے شروع ہوتا ہے کہ گورننس ہر ایک کا کام ہے۔ حتمی سوال ہمارے سامنے ہے: "اگر گورننس قوموں کی تقدیر کا تعین کرتی ہے، تو ہم پاکستان کے لیے کون سی تقدیر بنانے پر تیار ہیں؟"
Azhar Niaz
