مقامی حکومت کے بارے میں 4 حیران کن سچائیاں: اصل طاقت پارلیمنٹ میں نہیں، آپ کی گلی میں ہے
ہم میں سے اکثر شہری اس مایوسی کا شکار رہتے ہیں جب قومی سطح پر بننے والی پالیسیاں ہمارے مقامی مسائل حل کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ گلی کی ٹوٹی ہوئی سڑک، محلے میں کچرے کا ڈھیر، یا پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی—یہ وہ مسائل ہیں جن کے حل کے لیے ہماری نظریں ہمیشہ اسلام آباد یا صوبائی دارالحکومت کی طرف اٹھتی ہیں، لیکن اکثر کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ ریاست اور شہری کے درمیان ایک اہم ترین پُل کی کمزوری یا عدم موجودگی ہے، جسے ’’مقامی حکومت‘‘ کہا جاتا ہے۔
یہ نظام اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، لیکن یہی وہ بنیاد ہے جو جمہوریت کو حقیقی معنوں میں عوام تک پہنچاتی ہے۔ ایک مضبوط مقامی حکومت تین بنیادی نتائج کو یقینی بناتی ہے: موثریت، کیونکہ مقامی حکام اپنی کمیونٹی کی ضروریات کو بہتر سمجھتے ہیں؛ احتساب، کیونکہ شہریوں کے لیے مقامی اہلکار سے سوال کرنا ایک دور دراز وزیر سے کہیں زیادہ آسان ہوتا ہے؛ اور شرکت، کیونکہ جمہوریت صرف پانچ سالہ انتخابات کا نام نہیں بلکہ روزمرہ کی شمولیت کا عمل ہے۔
اس تحریر میں ہم مقامی حکومتوں کے بارے میں کچھ ایسی حیران کن سچائیاں جانیں گے جو اس نظام کی اہمیت اور اس کی راہ میں حائل اصل رکاوٹوں کو واضح کرتی ہیں۔
۱. آئین کا وعدہ، کوئی جدید تجربہ نہیں
اکثر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مقامی حکومتوں کا تصور کوئی نیا یا مغربی خیال ہے، لیکن سچائی اس کے بالکل برعکس ہے۔ پاکستان میں مقامی حکومت کا وژن کوئی جدید تجربہ نہیں، بلکہ یہ ملک کے آئینی ڈھانچے کی بنیاد کا حصہ ہے۔ پاکستان کے 1973 کے آئین کی آرٹیکل 140-اے واضح طور پر صوبوں کو سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات مقامی حکومتوں کو منتقل کرنے کا پابند کرتی ہے۔
یہ صرف ایک آئینی شق ہی نہیں، بلکہ یہ ایک عالمی جمہوری اصول سبسڈیریٹی (Subsidiarity) کی عکاسی بھی کرتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ ’’جو فیصلے مقامی سطح پر ہو سکتے ہیں، انہیں مرکزی طور پر مسلط نہیں کیا جانا چاہیے‘‘۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو نظام آئین کی بنیادی روح اور ایک کامیاب عالمی معیار کا حصہ ہے، وہی پاکستان میں حکومتی ڈھانچے کا سب سے غیر مستحکم اور کمزور ترین ستون رہا ہے۔
۲. ماضی میں اختیارات کی منتقلی کا فریب
پاکستان کی سیاسی تاریخ ایک عجیب تضاد سے بھری پڑی ہے: ہر حکمران، خواہ وہ سویلین ہو یا فوجی، عوام کو بااختیار بنانے کی بات کرتا رہا، لیکن حقیقت میں کسی نے بھی عوام پر بھروسہ کر کے انہیں حقیقی طاقت نہیں سونپی۔
ایوب خان کے دور کے بنیادی جمہوریت کے نظام سے لے کر ضیاء الحق کی مقامی کونسلوں اور پرویز مشرف کے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے منصوبے تک، بظاہر تو مقامی ڈھانچے بنائے گئے، لیکن ان سب کو مرکز سے سختی سے کنٹرول کیا جاتا رہا۔ جیسے ہی حکومتیں تبدیل ہوئیں، ان نظاموں کو یا تو ختم کر دیا گیا یا غیر فعال بنا دیا گیا، جس سے ایک ایسا خلا پیدا ہوا جو آج تک موجود ہے۔ اس تاریخی روش کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ شہریوں میں انحصار کی عادت پختہ ہو گئی اور وہ اپنے مقامی مسائل کے حل کے لیے بھی دور بیٹھے حکمرانوں کی طرف دیکھنے لگے۔
۳. اصل رکاوٹ اعتماد کی کمی ہے
کاغذوں پر مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کی راہ میں کئی رکاوٹیں گنوائی جاتی ہیں، جیسے:
- قانونی ابہام
- مالی انحصار
- سیاسی مزاحمت
- انتظامی جمود
لیکن یہ تکنیکی مسائل صرف علامات ہیں۔ اصل اور بنیادی مسئلہ بہت گہرا ہے: یہ عوام کی اپنی صلاحیتوں پر عدم اعتماد کا مسئلہ ہے۔ یہ عدم اعتماد بلاجواز ہے، کیونکہ عالمی سطح پر اس کے کامیاب نمونے موجود ہیں۔ بھارت میں پنچایتی راج کے نظام نے لاکھوں دیہی شہریوں کو فیصلہ سازی میں براہ راست کردار دیا ہے، جبکہ انڈونیشیا میں اختیارات کی منتقلی نے عوامی خدمات کی فراہمی کو بہتر بنایا اور بدعنوانی میں کمی کی۔
یہ مثالیں ثابت کرتی ہیں کہ اصل رکاوٹ وسائل یا قوانین نہیں، بلکہ وہ بنیادی سوال ہے کہ: ’’کیا ہم بحیثیت ریاست اور معاشرہ واقعی یہ مانتے ہیں کہ شہری اپنے معاملات خود چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟‘‘
۴. بانی کا وژن: حکمرانی نہیں، خدمت
حکومت کیسی ہونی چاہیے، اس بارے میں سب سے طاقتور وژن پاکستان کے بانی، قائد اعظم محمد علی جناح نے پیش کیا تھا۔ ان کا فلسفہ ایک جوابدہ اور عوام پر مبنی حکومت کا تھا، جہاں ریاست عوام کی حاکم نہیں بلکہ خادم ہو۔ ان کا ایک جملہ اس پورے فلسفے کا نچوڑ ہے:
”تم حکمران نہیں ہو۔ تم حکومت نہیں کرتے۔ تم عوام کے خادم ہو۔“
یہ ایک جملہ مقامی حکومت کی پوری روح کو بیان کرتا ہے۔ یہ کنٹرول اور حکمرانی کے بجائے خدمت اور عوام کے ساتھ شراکت داری پر زور دیتا ہے۔ حقیقی قیادت کا آغاز حکمرانی سے نہیں، خدمت سے ہوتا ہے، اور یہی وہ اصول ہے جو ایک مضبوط مقامی حکومت کی بنیاد بن سکتا ہے۔
خاتمہ
پاکستان میں موثر طرز حکمرانی کی تعمیر نو کا سفر اوپر سے نیچے نہیں، بلکہ نچلی سطح سے شروع ہونا چاہیے۔ جب شہری اپنے مقامی فیصلوں میں حصہ لیتے ہیں، تو وہ نہ صرف احتساب پیدا کرتے ہیں بلکہ ملکیت کا احساس بھی پیدا کرتے ہیں۔ جب طاقت نیچے کی طرف بہتی ہے، تو اعتماد اوپر کی طرف بڑھتا ہے۔
آج کے دور میں ٹیکنالوجی اس عمل کو مزید تیز کر سکتی ہے۔ ڈیجیٹل ٹولز مقامی حکومت کو دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں۔ میونسپل مسائل کی اطلاع دینے والے پلیٹ فارمز، ڈیجیٹل بجٹنگ ڈیش بورڈز، اور آن لائن سٹیزن کونسلز عام لوگوں کو آواز اور شفافیت فراہم کر سکتے ہیں، جو بیوروکریسی کو بائی پاس کر کے شہریوں اور حکومت کے درمیان براہ راست رابطہ قائم کرتے ہیں۔
مضبوط مقامی حکومتیں قومی اتحاد کے لیے کوئی خطرہ نہیں، بلکہ اس کا سب سے مضبوط دفاع ہیں۔ کیونکہ جب ہر برادری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کی بات سنی جا رہی ہے، تو ہر شہری خود کو ملک کا ایک اہم حصہ محسوس کرتا ہے۔ تو پھر یہ سوال سوچنے پر مجبور کرتا ہے: کیا ہو اگر پاکستان کی تعمیر نو کا سفر پارلیمنٹ کے ایوانوں سے نہیں، بلکہ ہمارے قدموں تلے موجود زمین سے شروع ہو؟
Azhar Niaz
