by Azhar Niaz

ایک زمانے کی بات ہے، ایک چھوٹے سے گاؤں مہرپور میں ایک بارہ سالہ لڑکا رہتا تھا جس کا نام رفیق تھا۔
وہ ہوشیار، چنچل اور بہت تجسس رکھنے والا بچہ تھا۔ لیکن ایک بات اس میں ٹھیک نہیں تھی — جب وہ مشکل میں پھنس جاتا تو سچ چھپانے کے لیے جھوٹ بول دیتا۔

رفیق کے والد ماسٹر کریم گاؤں کے بڑھئی تھے۔ لوگ اُن کی ایمانداری اور ہاتھ کے ہنر کی مثال دیتے تھے۔
رفیق کی ماں بازار میں پھل بیچتی تھی۔ وہ اکثر کہتی،

"بیٹا، سچ آئینے کی طرح ہوتا ہے، اگر اسے صاف رکھو تو تمہارا چہرہ ہمیشہ روشن رہے گا۔"

رفیق سر ہلا دیتا، مگر دل میں سوچتا،
“چھوٹا سا جھوٹ کوئی بڑی بات تو نہیں…”


💰 گمشدہ سکے

ایک دن رفیق کی ماں نے اُسے دس چاندی کے سکے دیے کہ جا کر چکی سے آٹا لے آؤ۔
راستے میں وہ اپنے دوستوں کو کرکٹ کھیلتے دیکھتا رک گیا۔
“آ جا رفیق! بس ایک اوور کھیل لے!” عمران نے آواز دی۔

رفیق نے سکوں کو ایک پتھر پر رکھ کر کہا، “ٹھیک ہے، بس ایک اوور!”

مگر ایک اوور دو بن گیا، پھر تین۔
جب وہ واپس آیا تو سکے غائب تھے۔
اُس کا دل دھک سے رہ گیا۔ اُس نے ہر جگہ ڈھونڈا، مگر سکے نہیں ملے۔

وہ خوف زدہ تھا۔ امی ناراض ہوں گی، ابو مایوس ہو جائیں گے…
سو اُس نے جھوٹ بول دیا۔

“امی! چکی پر ایک آدمی نے سکے چھین لیے!”

ماں چونک گئی۔ “اللہ خیر کرے! تمہیں کچھ ہوا تو نہیں؟”
“نہیں امی، وہ بھاگ گیا۔”

ماں نے افسوس سے سر ہلایا، “چلو، جان تو سلامت ہے۔”
رفیق کے دل پر بوجھ بڑھ گیا، مگر اُس نے کچھ نہیں کہا۔


🌙 پرانا برگد بول اُٹھا

شام کو رفیق گاؤں کے تالاب کے پاس موجود بڑے برگد کے درخت کے نیچے بیٹھا۔
ہوا ہلکی ہلکی چل رہی تھی۔ پتوں کی سرسراہٹ میں اُسے لگا جیسے درخت کچھ کہہ رہا ہو —

“سچ ہمیشہ اپنا راستہ بنا لیتا ہے، بیٹا…”

وہ چونک کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ کوئی نہیں تھا۔
“میں وہم کر رہا ہوں…” اُس نے ہنس کر خود سے کہا۔

رات کو اُسے خواب آیا۔ اُسی برگد کے درخت کے نیچے، اُس نے درخت کو بولتے دیکھا۔

“جھوٹ ایک بیج ہے، اگر اسے مٹی میں چھپا دو تو وہ جڑ پکڑ لیتا ہے،
اور پھر تمہاری روشنی کو ڈھانپ دیتا ہے…”

رفیق گھبرا کر جاگ گیا۔ “یہ تو بس خواب ہے…” مگر دل میں چبھن باقی رہی۔


🪑 ٹوٹا ہوا کرسی کا پایہ

اگلی صبح ابو نے کہا، “رفیق، آؤ بیٹے، ورکشاپ میں ہاتھ بٹاؤ۔”
“یہ کرسی کا پایہ پکڑو، میں کیل لگاتا ہوں۔”

رفیق نے پایہ پکڑا، مگر اُس کا ہاتھ پھسل گیا اور پایہ ٹوٹ گیا۔
“ارے!” وہ گھبرا کر بولا۔

ابو نے پوچھا، “گر گیا تھا کیا؟”
رفیق نے تیزی سے کہا، “نہیں ابو، لکڑی پہلے ہی کمزور تھی!”

ابو نے خاموشی سے دیکھا اور کچھ نہ کہا۔
جب گاہک آیا تو کرسی بیٹھتے ہی ٹوٹ گئی۔
وہ بولا، “ماسٹر جی! یہ تو کمزور لکڑی ہے، آپ کی کاریگری پر یقین تھا!”

ماسٹر کریم کے چہرے پر شرمندگی چھا گئی۔
رفیق کا دل پھر بوجھل ہو گیا۔ رات کو وہ چھت پر لیٹا سوچتا رہا،
“پہلے سکے، اب کرسی… کیوں سب کچھ غلط لگ رہا ہے؟”

پھر اُسے لگا جیسے برگد کی سرسراہٹ دوبارہ سنائی دے رہی ہو —

“تمہارا جھوٹ جڑ پکڑ رہا ہے، رفیق… صرف سچ اسے روک سکتا ہے۔”


⛈️ سچ کا طوفان

اگلے دن آسمان پر بادل چھا گئے۔ رفیق اسکول جا رہا تھا کہ زور کی بارش شروع ہو گئی۔
وہ بھاگ کر برگد کے درخت کے نیچے آ گیا۔

پانی کے قطروں میں اُس نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا،

“میں نے جھوٹ بولا… دو بار۔ اب کیا کروں؟”

اچانک تیز ہوا چلی، پتّے اُڑنے لگے، جیسے درخت اُسے جواب دے رہا ہو۔
رفیق کو لگا جیسے قدرت کہہ رہی ہو — اب سچ بولنے کا وقت ہے۔

وہ دوڑتا ہوا گھر گیا، بھیگا ہوا، سانس پھول رہی تھی۔
“امی، ابو… مجھے کچھ کہنا ہے!”

دونوں چونک کر اُسے دیکھنے لگے۔
“سکے چوری نہیں ہوئے تھے۔ میں کھیلنے میں لگا رہا، پھر وہ گم ہو گئے۔
اور کرسی کا پایہ بھی میرے ہاتھ سے گرا تھا۔ میں نے جھوٹ بولا۔ مجھے ڈر لگا تھا…”

کمرے میں خاموشی چھا گئی۔
پھر ابو نے آہستہ سے مسکرا کر کہا،

“بیٹا، انسان سے غلطی ہو سکتی ہے، مگر جو اپنی غلطی مان لیتا ہے،
وہی اصل بہادر ہے۔”

امی نے آنسو صاف کیے اور کہا، “اب میرا بیٹا واقعی بڑا ہو گیا ہے!”


🌾 سچ کی جیت

اگلے دن رفیق نے گمشدہ سکے ڈھونڈنے کی ٹھانی۔
وہ کھیل کے میدان گیا، پتھروں کے نیچے دیکھا — اور ایک سکہ مل گیا!

وہ سیدھا دکاندار کے پاس گیا اور سب کچھ سچ سچ بتا دیا۔
دکاندار مسکرایا،

“بیٹا، تم نے ایمانداری دکھائی ہے۔ یہ لو، آٹے کے ساتھ تھوڑا سا اضافی آٹا بھی لے جاؤ، سچ کے انعام کے طور پر!”

گھر واپس جا کر رفیق نے آٹا رکھا تو ابو اور امی نے خوشی سے اُس کی پیشانی چوم لی۔

رات کو وہ پھر برگد کے نیچے گیا۔
ہوا میں ہلکی سی خوشبو تھی۔ اُس نے آہستہ سے کہا،

“شکریہ درخت، تم نے سچ کا راستہ دکھایا۔”

درخت کے پتّے ہلے جیسے کہہ رہے ہوں،

“جب دل صاف ہو، تو زندگی روشنی سے بھر جاتی ہے۔
سچ بولنے سے دنیا نہیں، تم خود بہتر بن جاتے ہو۔”

وقت گزرتا گیا۔ رفیق بڑا ہوا، تعلیم حاصل کی، اور اسی گاؤں کا استاد بن گیا۔
وہ اکثر بچوں کو کہانی سناتا —

“سچ ایک درخت کی جڑوں کی طرح ہوتا ہے، نظر نہیں آتی،
مگر تمہیں زمین سے جوڑے رکھتی ہے۔”

اور جب بھی کوئی بچہ پوچھتا، “سر، آپ نے یہ بات کہاں سے سیکھی؟”
وہ مسکرا کر کہتا،

“ایک پرانے برگد کے درخت نے مجھے سچ بولنا سکھایا تھا۔”


🌟 سبق

جھوٹ وقتی سہولت دیتا ہے، مگر سچ ہمیشہ سکون دیتا ہے۔
سچ بولنے والا شخص نہ صرف دوسروں کے سامنے، بلکہ خود اپنے دل میں بھی عزت پاتا ہے۔



Previous Post Next Post

Gallery

انٹرنیشنل خبریں

About Us

Azhar Niaz is a distinguished figure in the realm of media, boasting a lifelong career as a Programs Producer at Pakistan Broadcasting Corporation (Radio Pakistan) and Pakistan Television (PTV). His profound expertise spans the audio and visual media landscape in Pakistan, where he has left an indelible mark. Beyond his role in shaping the nation's media landscape, Azhar Niaz has amassed extensive experience as a media consultant and a mass awareness campaign expert, collaborating with both national and international organizations.