تعارف: ایک دن، ہزار کہانیاں
کیلنڈر پر موجود کوئی بھی ایک دن، جیسے ۱۱ دسمبر، انسانی تاریخ کی وسیع اور پیچیدہ داستان کو سمجھنے کے لیے ایک کھڑکی کا کام دے سکتا ہے۔ یہ محض تاریخوں کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک ایسا موقع ہے جب ہم ماضی کے ان لمحات کو دیکھ سکتے ہیں جنہوں نے ہماری دنیا کو تشکیل دیا۔
اس دستاویز کا مقصد ۱۱ دسمبر کو پیش آنے والے اہم واقعات کا جائزہ لینا اور انہیں ایک ایسی کہانی میں پرونا ہے جو طاقت، تنازعات، تعاون اور تبدیلی جیسے موضوعات کو اجاگر کرتی ہے۔ ہم قدیم سلطنتوں میں طاقت کی کشمکش سے اپنا سفر شروع کریں گے اور جدید دور کے عالمی تعلقات تک پہنچیں گے، یہ دیکھتے ہوئے کہ کس طرح ایک دن کی تاریخ انسانی تہذیب کے ارتقا کی عکاسی کرتی ہے۔
1. قدیم سلطنتوں کا عروج و زوال: طاقت کی کشمکش
اس تاریخ کے ابتدائی واقعات عظیم سلطنتوں کے اندر طاقت کی ڈرامائی اور اکثر پرتشدد تبدیلیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب بادشاہتیں اور خلافتیں ذاتی عزائم اور محلاتی سازشوں کی وجہ سے عدم استحکام کا شکار ہو جاتی تھیں۔
* 861ء - عباسی خلافت میں انتشار کا آغاز: تصور کیجیے کہ 861ء میں سامرا کے عظیم محلات میں کیا ہوا ہوگا، جب عباسی خلیفہ المتوکل، جو اپنی طاقت کے عروج پر تھا، ان ہی محافظوں میں سے ایک کے ہاتھوں مارا گیا جن پر وہ سب سے زیادہ بھروسہ کرتا تھا۔ یہ صرف ایک قتل نہیں تھا؛ یہ خلافت کے دل میں ایک گہرا زخم تھا جس نے "سامرا کا انتشار" (Anarchy at Samarra) نامی خلفشار اور عدم استحکام کے ایک طویل دور کا آغاز کیا اور مرکزی اختیار کو شدید طور پر کمزور کر دیا۔
* 969ء - بازنطینی تخت پر سازش: بازنطینی شہنشاہ Nikephoros II Phokas کو اس کی بیوی تھیوفانو اور اس کے عاشق، جان زیمیسکیس (John Tzimiskes)، نے قتل کر دیا، جو بعد میں خود شہنشاہ بنا۔ یہ واقعہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ کس طرح ذاتی خواہشات اور درباری سازشیں ایک سلطنت کی تقدیر بدل سکتی تھیں۔
طاقت کا کھیل صرف محلات کی دیواروں تک محدود نہ رہا۔ وقت کے ساتھ، یہ تلواروں سے نکل کر نقشوں پر لکھی جانے والی لکیروں اور عالمی جنگوں کے میدانوں تک پھیل گیا، جس نے قوموں کی تقدیر ہمیشہ کے لیے بدل دی۔
2. قوموں کی تشکیل اور عالمی جنگوں کا دور
تو پھر سلطنتوں کے بکھرنے کے بعد دنیا کیسی نظر آنے لگی؟ ۱۱ دسمبر ہمیں اس کی چند جھلکیاں دکھاتا ہے۔ دنیا آہستہ آہستہ سلطنتوں کے دور سے نکل کر قومی ریاستوں کے دور میں داخل ہوئی، جس کے نتیجے میں ایسے تنازعات نے جنم لیا جن کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی تھی۔ اس دور میں قوموں کی سرحدیں بنیں اور عالمی جنگوں نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔
* 1816ء - انڈیانا کا قیام: انڈیانا کو امریکا کی 19ویں ریاست کا درجہ دیا گیا۔ یہ واقعہ ریاستہائے متحدہ میں قوم کی تعمیر اور مغرب کی جانب توسیع کی ایک اہم مثال ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ کس طرح اندرونی طور پر قومیں اپنی سرحدیں اور شناخت قائم کر رہی تھیں، بالکل اسی وقت جب عالمی سطح پر پرانی سلطنتیں ٹکرا رہی تھیں۔
* 1917ء - پہلی جنگ عظیم اور یروشلم: برطانوی جنرل ایلن بی نے یروشلم میں داخل ہو کر مارشل لاء نافذ کر دیا۔ یہ واقعہ نہ صرف فوجی لحاظ سے اہم تھا بلکہ یروشلم کی تین ابراہیمی مذاہب کے لیے مقدس حیثیت کی وجہ سے ایک گہری علامتی اہمیت بھی رکھتا تھا، جس نے خطے کی مستقبل کی سیاست پر انمٹ نقوش چھوڑے۔
* 1941ء - دوسری جنگ عظیم کا پھیلاؤ: جرمنی اور اٹلی نے ریاستہائے متحدہ کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ یہ اقدام پرل ہاربر پر جاپانی حملے کے بعد کیا گیا، جس نے یورپ اور ایشیا کے تنازعات کو باضابطہ طور پر ایک عالمی جنگ میں بدل دیا اور امریکا، برطانیہ اور سوویت یونین کے درمیان اتحاد کو مضبوط کر دیا۔
عالمی جنگوں کی تباہی نے دنیا کو امن اور انسانی فلاح و بہبود کے لیے نئے ادارے قائم کرنے پر مجبور کیا۔
3. ایک نئی دنیا: ادارے، نظریات اور نئے تنازعات
دوسری جنگ عظیم کے بعد کا دور امید، نوآبادیاتی نظام کے خاتمے، نظریاتی جدوجہد اور نئے تنازعات کے ابھرنے کا زمانہ تھا۔ ایک طرف عالمی ادارے قائم ہو رہے تھے تو دوسری طرف نئی قومیں آزادی حاصل کر رہی تھیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کی دنیا میں تبدیلی کے دو متضاد لیکن اہم راستے اس جدول میں واضح ہوتے ہیں: ایک طرف انسانی ہمدردی پر مبنی عالمی تعاون کا راستہ، تو دوسری طرف نوآبادیاتی طاقتوں کے خاتمے کا سفر۔
سال واقعہ اور اس کی اہمیت
1946ء یونیسیف کا قیام (UNICEF): اقوام متحدہ نے بچوں کا عالمی ہنگامی فنڈ قائم کیا۔ یہ عالمی انسانی ہمدردی کی جانب ایک اہم قدم تھا جس کا مقصد جنگ سے متاثرہ بچوں کی زندگیوں کو بچانا اور ان کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا تھا۔
1958ء افریقہ میں آزادی کی لہر: فرانسیسی اپر وولٹا (موجودہ برکینا فاسو) اور فرانسیسی داهومی (موجودہ بینن) نے فرانس سے خود مختاری حاصل کرکے جمہوریہ بنیں اور فرانسیسی کمیونٹی میں شامل ہو گئیں۔ یہ واقعہ نوآبادیاتی نظام کے خاتمے اور افریقہ میں نئی قوموں کے ابھرنے کی ایک طاقتور علامت تھا۔
اسی دور میں نظریاتی اور سیاسی محاذوں پر بھی اہم واقعات پیش آئے:
* 1964ء - چی گویرا کا اقوام متحدہ میں خطاب: چی گویرا نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ یہ سرد جنگ کا ایک یادگار لمحہ تھا، جہاں ایک انقلابی نظریے کی آواز عالمی سٹیج پر گونجی۔
* 1994ء - چیچنیا کی پہلی جنگ: روسی صدر بورس یلسن کے حکم پر روسی افواج چیچنیا میں داخل ہو گئیں۔ یہ واقعہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والے پیچیدہ اور پرتشدد تنازعات کی ایک مثال ہے۔
سیاسی اور فوجی تنازعات کے ساتھ ساتھ دنیا کی توجہ آہستہ آہستہ عالمی اقتصادی اور ماحولیاتی مسائل کی طرف مبذول ہونے لگی۔
4. عالمگیریت کا دور: عالمی معیشت اور ماحولیاتی چیلنجز
بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے آغاز میں دنیا تیزی سے ایک دوسرے سے منسلک ہو گئی، جس نے نئے مواقع پیدا کیے لیکن ساتھ ہی نئے چیلنجز بھی سامنے لائے۔
1. 1997ء - کیوٹو پروٹوکول پر اتفاق: جاپان کے شہر کیوٹو میں 150 سے زائد ممالک نے کیوٹو پروٹوکول نامی معاہدے کی توثیق کی، جس کا مقصد گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کنٹرول کرنا تھا۔ یہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے بین الاقوامی تعاون کی جانب ایک تاریخی، اگرچہ چیلنجنگ، قدم تھا۔
2. 2001ء - چین کی عالمی تجارتی ادارے میں شمولیت: چین عالمی تجارتی ادارے (WTO) کا رکن بن گیا۔ اس فیصلے نے عالمی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے اور چین کو دنیا کے معاشی نظام میں مکمل طور پر ضم کر دیا۔
3. 2008ء - برنارڈ میڈاف کی گرفتاری: برنارڈ میڈاف کو 50 ارب ڈالر کی پونزی اسکیم (ایک دھوکہ دہی پر مبنی سرمایہ کاری کا منصوبہ جہاں نئے سرمایہ کاروں کے پیسوں سے پرانے سرمایہ کاروں کو منافع دیا جاتا ہے) کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ یہ واقعہ ایک پیچیدہ اور عالمگیر مالیاتی نظام کے اندر موجود خطرات اور بڑے پیمانے پر فراڈ کے امکانات کو واضح کرتا ہے۔
قدیم سلطنتوں کے دور سے لے کر جدید عالمی چیلنجز تک، ۱۱ دسمبر کی تاریخ ہمیں انسانی سفر کے مختلف مراحل دکھاتی ہے۔
5. اختتامیہ: تاریخ کا سبق
۱۱ دسمبر کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تاریخ کتنی متحرک اور کثیر الجہتی ہے۔ یہ دن ہمیں خلفاء اور شہنشاہوں کے قتل سے لے کر یونیسیف جیسے انسانی ہمدردی کے اداروں کے قیام تک، اور عالمی جنگوں کے اعلان سے لے کر ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدوں تک کا سفر کرواتا ہے۔
یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تاریخ صرف ماضی کا مطالعہ نہیں، بلکہ حال کو سمجھنے کا ایک ذریعہ ہے۔ ایک ترک محافظ کا فیصلہ، ایک برطانوی جنرل کا قدم، اور اقوام متحدہ کے ہال میں ایک انقلابی کی تقریر، ان سب کی گونج آج بھی ہماری دنیا میں سنائی دیتی ہے۔ ایک ہی دن کے واقعات کا مطالعہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ ہماری دنیا کی کہانی کس طرح آپس میں جڑی ہوئی ہے اور کس طرح ماضی کے فیصلے، تنازعات اور کامیابیاں آج بھی ہماری زندگیوں پر اثر انداز ہو
رہی ہیں۔
azhar niaz
