السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته،
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے، خوش ہوں گے، اور سب سے بڑھ کر — سوچنے والے ہوں گے۔
آج کی یہ گفتگو — جس کا عنوان ہے "میں کون ہوں؟" — ایک ایسا سوال ہے جو شاید آپ نے زندگی میں کئی بار سنا ہوگا، کئی بار سوچا بھی ہوگا، مگر شاید کبھی اس پر مکمل غور نہیں کیا۔
ہم سب زندگی میں بہت سے کردار ادا کرتے ہیں — کوئی بیٹا ہے، کوئی بیٹی، کوئی طالبعلم، کوئی استاد، کوئی شوہر، کوئی بیوی، کوئی ملازم، کوئی مالک، کوئی دوست، کوئی دشمن — لیکن ان تمام کرداروں کے پیچھے جو اصل ذات ہے، وہ کون ہے؟
🔹 شناخت کا بحران
جب تک کوئی دوسرا ہمیں اچھا نہ کہے، ہم خود کو اچھا محسوس ہی نہیں کرتے۔
نہیں، بالکل نہیں!
🔹 اصل میں، میں کیا ہوں؟
تو پھر "میں" کیا ہوں؟
🔹 ایک سوال جو زندگی بدل سکتا ہے
🔹 علامہ اقبال کا تصور خودی
خُدی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلےخُدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے؟
یہ وہ مقام ہے جہاں انسان خود کو اتنا پہچان لیتا ہے کہ اس کی خواہش، اس کا ارادہ، اللہ کے ارادے سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔
🔹 خود کو پہچاننے کے فوائد
خود کو پہچاننے سے:
-
اعتماد پیدا ہوتا ہے
-
فیصلے آسان ہوتے ہیں
-
دوسروں کے کہنے پر جینے کی مجبوری ختم ہو جاتی ہے
-
انسان اپنی ذات سے محبت کرنا سیکھتا ہے — اور جو خود سے محبت کرتا ہے، وہ دوسروں سے نفرت نہیں کرتا
🔹 عملی مشورہ — ایک سادہ مشق
آج رات ایک کام کیجئے:
-
جب سب سو جائیں
-
لائٹ بند کریں
-
موبائل سائیڈ پر رکھیں
-
اور ایک آئینہ سامنے رکھ کر خود سے سوال کریں:"میں کون ہوں؟"خاموشی سے، دل کی گہرائیوں سے، بغیر کسی ڈر یا جھجک کے...
شاید کوئی جواب نہ آئے، لیکن دل ضرور ہلے گا... اور وہی آغاز ہوگا اس سفر کا، جو زندگی کو اصل بنا دیتا ہے۔
🔹 اختتامی پیغام
یاد رکھئے، جو خود کو پہچانتا ہے، وہی دنیا کو بہتر بناتا ہے۔
کیونکہ جب آپ اندر سے مطمئن ہوتے ہیں، تبھی باہر محبت، امن، اور روشنی پھیلا سکتے ہیں۔